دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: صاحب اقتدار لوگوں کا اپنے وعدوں پر عمل نہ کرنا، اسلام کے ساتھ خيانت ہے.
«ايلنا» خبر رساں ادارے کے سربراہ، ايڈيٹرز اور صحافيوں سے ملاقات کے دورانصاحب اقتدار لوگوں کا اپنے وعدوں پر عمل نہ کرنا، اسلام کے ساتھ خيانت ہے.
حضرت آيتالله العظمي صانعي در ديدار مديرعامل, سردبيران و خبرنگاران خبرگزاري كار ايران (ايلنا) با معظمله اظهار داشتند: تمام نقشههاي دشمنان اسلام و انقلاب در جهت جلوگيري از اثرگذاري روحانيت اصيل در جامعه است و اين مسالهاي است كه در طول تاريخ به صهاي م تكرار شده است.
حضرت آية اللہ العظمي صانعي نہ «ايلنا» خبر رساں ادارے کے سربراہ، ايڈيٹرز اور صحافيوں سے ملاقات کے دوران فرمايا: اسلام اور انقلاب کے تمام دشمنوں کا اصلي مقصد يہ ہے کہ معاشرے ميں اصيل روحانيت کے اثر رسوخ کو کم کيا جائے. اور يہ مسئلہ پوري تاريخ ميں مختلف طريقوں سے تکرار ہوتا چلا آ رہا ہے.
آپ نے فرمايا: دشمنوں کے حربوں کي وجہ سے اس ملک ميں کوئي بھي دوسرے پر اعتماد نہيں کرتا اور اگر کسي کو کچھ کہنا بھي ہو يا اگر اپنے نظريے کو ظاہر بھي کرے تو اس پر منفعت طلبي کا الزام لگا ديا جاتا ہے. آپ نے ان حالات پر افسوس کرتے ہوئے فرمايا: آج حالات کو ايسا بنا ديا گيا ہے کہ جو افراد انقلاب اور اس (اسلامي) نظام کے ارکان ميں سے ہيں اور ان کو حضرت امام خميني سلام اللہ عليہ کي تأئيد بھي حاصل ہے اور آپ ان افراد سے محبت بھي فرماتے تھے، آج معاشرے ميں ان پر سوء ظن کيا جاتا ہے اور ان کي طرف تہمت کي انگلي اٹھ رہي ہے. اور سياسي، ديني اور عوامي چہرے جو امام (رہ) کے مورد تأئيد تھے ايک طرف دھکيل ديے گئے ہيں، اور کچھ بولنے سے پہلے ہي ان پر الزام تراشي کي جاتي ہے.
صاحب اقتدار لوگوں کا اپنے کئے ہوئے وعدوں پر عمل نہ کرنا خود بے ثباتي کا باعث ہے. کسي کو جھوٹ بولنے کا حق نہيں ہے، کيونکہ وہ لوگوں کي آراء سے اقتدار ميں آيا ہے اور لوگوں کي طرف سے بول رہا ہوتا ہے اور عوام کبھي اپنے آپ سے جھوٹ نہيں بولتے.
فقيہ عاليقدر نے اس طرف اشارہ فرماتے ہوئے کہ آزادي بيان اور شہريوں کي امنيت، اسلام اور مکتب تشيع کے مسلم اصولوں ميں سے ہے، فرمايا: ايک اسلامي اور آئيڈيل حکومت ميں زباني اور اقتصادي آزادي ہوني چاہئے اور حالات کو ايسا نہيں ہونا چاہئے کہ لوگ تنبيہ اور توبيخ يا جيل اور قيد کے ڈر سے چپ رہيں يا اپنے سرمايوں کو ملک سے ہاہر منتقل کريں.
آپ نے گذشتہ ايک صدي ميں اھل قلم اور ميڈيا سے وابستہ افراد کے لئے لگائي گئي پابنديوں کي طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمايا: گذشتہ صدي ميں ما سوائے بہت محدود عرصے کے عام طور پر حکومتوں نے صحافي، مؤلف اور اہل قلم افراد کے ساتھ سختي کا رويہ اختيار کيا ہے اور ان کو آزادي سے کام نہيں کرنے ديا اور انقلاب کے بعد بھي صرف حضرت امام خميني (رح) کے محدود زمانے کے علاوہ ان کو مطلوبہ اور لازم آزادي نہيں ملي ہے.
حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے، امير المؤمنين حضرت علي عليہ السلام کي عملي سيرت کے کچھ نمونوں کو بيان فرماتے ہوئے، يوں فرمايا: حضرت علي عليہ السلام کے زمانے ميں لوگوں کو زباني امنيت حاصل تھي. حتي کہ مخالفين اور منجملہ خوارج بھي اپنے نظريات کو بيان کرنے ميں آزاد تھے اور جيسا کہ تاريخ ميں موجود ہے، خوارج مسجد ميں اور آپ عليہ السلام کے حضور ميں آپ کي اہانت کرتے تھے اور جب صحابہ کرام خوارج کو چپ کرانا چاہتے تھے تو آپ کے وجود مقدس کا ارشاد ہوتا تھا کہ جب تک خوارج نے اسلحہ نہيں اٹھايا، ان کو کچھ نہ کہا جائے بلکہ بيت المال سے بھي ان کو اپنا حق ضرور ديا جائے اور ان کو مسجد سے نہ نکالا جائے کيونکہ مسجد کسي خاص فرد کي ملکيت نہيں ہے بلکہ مسجد تمام لوگوں کے لئے ہے.
امام خميني (رح) کے بارز شاگرد نے اپنے کلام کو جاري رکھتے ہوئے فرمايا: حضرت امام علي عليہ السلام کي رفتار کا نمونہ، حضرت امام خميني سلام اللہ عليہ کے زمانے ميں بھي مختلف نظريات اور افکار سے منسلک گروہوں کے ساتھ ديکھنے ميں آيا. کيونکہ حضرت امام خميني (رح) کے زمانے ميں مختلف گروہ اپنے افکار اور عقائد کي ترويج ميں آزاد تھے اور جب تک انھوں نے اسلحہ نہ اٹھايا تھا، دوسرے تمام لوگوں کي طرح اپنے کام اور اپني عام زندگي ميں مصروف تھے.
آپ نے يہ نکتہ بيان فرماتے ہوئے کہ امام خميني (رح) کے زمانے ميں مختلف گروہوں کي روک تھام صرف ان کے انقلاب کے خلاف اسلحہ اٹھانے کي وجہ سے ہوئي تھي، فرمايا: البتہ اس زمانے ميں بھي بہت سي طاقتيں اور ان گروہوں کے حاميوں نے اس حرکت کو غير انساني اور انساني حقوق کے خلاف قرار ديتے تھے، حالانکہ آج خود امريکہ، برطانيہ، روس اور سعودي عرب خود اس قسم کے مسائل ميں گھرے ہوئے ہيں اور «دہشت گردي کے خلاف جنگ» کے نام سے انہي گروہوں سے لڑائي ميں مصروف ہيں.
آپ نے صراحت سے فرمايا کہ : کہ اگر اس زمانے ميں امريکي، ان گروہوں سے مقابلہ کرنے ميں حضرت امام خميني (رہ) کي حمايت کرتے، تو آج القاعدہ اور طالبان نامي تنظيموں اور گيارہ ستمبر اور عراق کے حادثات جيسے حوادث کا نام و نشاں تک نہ ہوتا.
حضرت آية اللہ صانعي نے اپني تقرير کے دوسرے حصے ميں موجودہ مہنگائي اور بعض معاشرتي ناچاکيوں جيسے نشے کي لعنت کے بارے ميں فرمايا: ان مسائل کے وجود کا انکار نہيں کيا جا سکتا اور البتہ ان مسائل کے سلسلے ميں صرف کسي ايک فرد کو قصوروار نہيں سمجھا جا سکتا بلکہ تمام مسئولين اس سلسلے ميں ذمہ دار ہيں اور ان مسائل کو حل کرنے کے لئے کوشش کرني چاہئے. ان مسائل کا انکار کرنا يا مطبوعات اور ميڈيا کو معاشرے کے حقائق اور ان مسائل کو چھپانے اور درج نہ کرنے پر مجبور کرنے سے عوام ميں بد گماني پھيلنے کے علاوہ يہ مسئلہ کا حل بھي نہيں ہے.
آپ نے فرمايا کہ اقتدار ميں رہنے والے افراد کا اپنے وعدوں پر عمل نہ کرنا اسلام سے خيانت ہے اور اسلام کے بے عزتي کا موجب بنے گا. آپ نے فرمايا: صاحب اقتدار لوگوں کا اپنے کئے ہوئے وعدوں پر عمل نہ کرنا خود بے ثباتي کا باعث ہے. کسي کو جھوٹ بولنے کا حق نہيں ہے، کيونکہ وہ لوگوں کي آراء سے اقتدار ميں آيا ہے اور لوگوں کي طرف سے بول رہا ہوتا ہے اور عوام کبھي اپنے آپ سے جھوٹ نہيں بولتے.
آپ نے اس نکتے کي طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ کسي عہدے پر فائز شخص اور عام لوگوں کے جھوٹ بولنے ميں فرق ہے، يوں فرمايا: يہ جو کہا جاتا ہے کہ جھوٹے لوگوں کي بدبو تمام آسمانوں تک پھيل جاتي ہے، يہ انہيں عہدہ دار لوگوں کے جھوٹ بولنے کے بارے ميں ہے نہ کہ ايک عادي فرد کے جھوٹ کي.
آپ نے آخر ميں ايلنا خبر رساں ايجنسي کي فعاليت کا شکريہ ادا کرتے ہوئے، اس ادارے کے کام کو سراحا. آپ نے فرمايا: ايلنا ايک زندہ اور جاري و ساري ادارہ ہے اور ملک ميں اس خبر رساں ايجنسي کا نشريات اور اطلاعات فراہم کرنے ميں بہت زيادہ کردار ہے.تاريخ: 2006/10/18 ويزيٹس: 5783