دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: اسلام نہ صرف انسانی حقوق کا حامی ہے بلکہ حیوانوں کے حقوق سے بھی حمایت کرتا ہے.
حضرت امام صادق (علیہ السلام) کی شہادت کی مناسبت پر آپ کے بیاناتاسلام نہ صرف انسانی حقوق کا حامی ہے بلکہ حیوانوں کے حقوق سے بھی حمایت کرتا ہے.
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام نہ صرف انسانی حقوق کا حامی ہے بلکہ حیوانات کے حقوق کا بھی حامی ہے. جس اسلام کے بارے میں ہم جانتے ہیں، اس میں نہ تبعیض ہے، نہ فرق اور نہ کوئی ظلم و ستم. اجتہاد کو وسعت دینی چاہئے اور تحقیقات میں اضافہ کرنا چاہئے تا کہ جرأت کے ساتھ کہا جا سکے کہ اسلام میں کوئی تبیعیض نہیں ہے، اسلام سب انسانوں کو ایک طرح نظر سے دیکھتا ہے.
شیعہ مرجع تقلید حضرت آیة اللہ العظمی یوسف صانعی نے اپنے فقہ کے درس خارج کے آخر میں (8/10/1381)، مدرسہ فیضیہ پر شاہ کی فوج کے حملے اور طالب علموں کی شہادت کی برسی کی مناسبت سے کچھ مطالب یوں بیان فرمائے:
آج ماہ شوال کی چوبیس تاریخ ہے. بالکل یہی دن تھے جن میں مدرسہ فیضہ کو خون سے رنگا گیا، یعنی پچیس شوال سنہ ٤١ اور ٤٢ میں فیضیہ کو ملاحظہ کیجئے اور تاریخ کا مطالعہ کیجئے، آپ کو پتہ چلے گا کہ اس وقت مدرسہ فیضیہ کے تمام کمرے زیر و رو ہو چکے تھے، اور تمام طالب علموں کو قتل کرنے کی حد تک مارا پیٹا گیا، اور دوسری منزل سے نیچے پھینکا گیا. مجھے ٹھیک یاد آ رہا ہے کہ حضرت آیة اللہ العظمی گلپایگانی (قدس سرہ) کی مجلس کو بند کر دیا گیا تھا، اور طالب علموں کو حد سے زیادہ مارا گیا، اور مرحوم سید یونس رودباری کو انہیں منزلوں سے نیچے پھینک کر، انھیں شھیدکر دیا گیا. اور کچھ لوگ شاہنشاہی گارڈ کے عنوان سے، امنیت کی حفاظت کے نام اور بغاوت کی روک تھام کے لئے، بہت سے طالب علموں کو بہت مارا پیٹا تھا اور ان کے سامان کو کمروں سے باہر پھینک دیا تھا.
آپ نے آگے یوں فرمایا: آپ کو چاہئے کہ پوچھئے کہ ان دنوں میں کیا ہوا تھا. اس دن ہم حضرت امام خمینی کے گھر پر تھے، کیونکہ صبح سے حضرت امام خمینی کے گھر پر حملے کا احتمال دیا جا رہا تھا، بعض دوست تھران سے آئے ہوئے تھے، دروازے کو بند کرنا چاہتے تھے تا کہ کمانڈوز حملہ نہ کر سکیں اور شاہ کے وحشی اور جلاد کارندے حضرت امام کے گھر کے اندر نہ آ سکیں، حضرت امام خمینی نے فرمایا: دروازہ کھول دو! میں دیکھنا چاہتا ہوں کس کی اتنی جرأت ہے کہ گھر میں قدم رکھے. حضرت امام کے اس جملے اور اس جرأت اور شجاعت کی وجہ سے، آپ کے گھر پر حملے کی سازش ناکارہ ہو گئی. اس دن کے واقعات کے بارے میں پوچھئے تا کہ خدا نخواستہ تاريخ بھلا نہ دی جائے یا اس میں تحریف واقع نہ ہو. اور میرا آپ سب دوستوں سے، آپ سب اہل قلم، آب سب صاحب فکر و اندیشہ اور ان سب لوگوں سے جو مسائل کے بارے میں اظہار نظر کرتے رہتے ہیں، ایک شکوہ ہے اور وہ یہ کہ آپ مدرسہ فیضیہ کے واقعات کے بارے میں کیوں کچھ نہیں بتاتے.
ہمیں ٹھیک یاد آ رہا ہے کہ حضرت آیة اللہ العظمی گلپایگانی (قدس سرہ) کی مجلس کو بند کر دیا گیا تھا، اور طالب علموں کو حد سے زیادہ مارا گیا، اور مرحوم سید یونس رودباری کو انہیں منزلوں سے نیچے پھینک کر، انھیں شھیدکر دیا گیا.
حضرت آیة اللہ العظمی صانعی نے اس نکتے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ فیضیہ کی اہمیت کا، فیضیہ کے واقعات کے چہلم کے دن پتہ چلا تھا، یوں فرمایا:
حضرت امام خمینی کے گرم اور تیز و تند بیانات اس اعلان میں آئے ہوئے ہیں، البتہ فیضیہ کے واقعات کا ان کے بعد ایک درس سیکھانے والا پہلو بھی ہے جو کسی دوسری فرصت میں اس کے بارے میں گفتگو کریں گے. اور میری خواہش یہ ہے کہ صاحبان فکر و اندیشہ اور اخباروں کے سرپرست فیضیہ کے واقعات اور ان کے بارے میں حضرت امام خمینی کے نقطہ نظرات کو لکھنا چاہئے. اس کی تحلیل کی جائے کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی شہادت کے دن، طالب علموں پر کیا گزری.
شجرہ طیبہ کی جڑ، فیضیہ اور یونیورسٹیوں کی اصالت اور اسی طرح علمی اور تہذیبی انقلابوں کے بانی، یعنی امام جعفر صادق اور آپ کے والد گرامی حضرت امام محمد باقر (علیھما السلام) ہیں کہ جو یہ دن ان کی شہادت کے ایام ہیں. ایسی مجالس جو ان ہستیوں کے نام پر منعقد ہوتی ہیں، ان میں شرکت کرنی چاہئے اور حضرت امام صادق علیہ السلام کے شامخ اور بلند مرتبہ مقام سے ارادت اور ادب کا اظہار کرنا چاہئے. ایسی مجالس میں شرکت، ہمارے لئے مفید ہے، نہ کہ ائمہ معصومین (علیھم السلام) کے لئے، وہ تو اپنے عالی مدارج تک پہنچ چکے ہیں، اور یہ ہم ہیں جو ان مجالس میں شریک ہو کر زیادہ انسانیت اور زیادہ ادب حاصل کر سکتے ہیں، انسانوں کے حقوق سے واقف تر اور اسلامی معارف کی نسبت زیادہ آگاہی حاصل کر سکتے ہیں. انہی ایام میں ان کے مصائب کو پڑھا جاتا ہے اور ان کی معرفت سے واقفیت ہوتی ہے، لہذا بہت مناسب لگ رہا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے ایک روایت کو بیان کریں:
شیعیان جہان کے مرجع تقلید نے آگے بڑھتے ہوئے، روایت کو بیان کرنے سے پہلے، انسانی حقوق کی اہمیت اور اسلام میں انسانوں کی برابری کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے یوں فرمایا:
پہلے ہم دو روایتیں عرض کرنا چاہتیں ہیں تا کہ ان سب لوگوں کو جواب دیا جائے جو اسلام کو انسانی حقوق کے مخالف ہونے کی تہمت لگاتے ہیں اور میں ایک بار پھر اس مقدس جگہ سے بیٹھ کر پوری دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام نہ صرف انسانی حقوق کا حامی ہے بلکہ حیوانوں کے حقوق سے بھی حمایت کرتا ہے. وہ اسلام جس کے بارے ہم جانتے ہیں، اس میں نہ تبعیض ہے، نہ فرق اور نہ کوئی ظلم و ستم. اجتہاد کو وسعت دینی چاہئے اور تحقیقات میں اضافہ کرنا چاہئے تا کہ جرأت کے ساتھ کہا جا سکے کہ اسلام میں کوئی تبیعیض نہیں ہے، اسلام سب انسانوں کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے «کلکم من بنی آدم»، «و لقد کرمنا بنی آدم»، نہ عورت اور نہ مرد، نہ جغرافیائی حدود، نہ رنگ اور نہ دوسرے عوامل، کو دخیل نہیں سمجھتا.
حضرت علامہ طباطبائی اپنی تفسیر میں اس آیت «انا خلقناکم من ذکر و انثی و جعلناکم شعوباً و قبائل لتعارفوا» کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت، قرآن کریم کی واضح ترین آیات میں سے ہے جو تمام انسانوں کے حقوق پر دلالت کرتی ہے اور ان حقوق کو محفوظ سمجھتی ہے. بارہا اظہار کر چکا ہوں کہ انہی فقہی طریقوں سے اور اسی صاحب جواہر کی فقہ اور اسی روائتی فقہ کے ذریعہ، میں یہ ثابت کر سکتا ہوں کہ اسلام نے برابری اور مساوات اور تمام انسانوں کے حقوق کی محافظت کی ہے، اور اس میں کسی قسم کی تبعیض اور ظلم کا وجود نہیں ہے.
اسلام سب انسانوں کے حقوق کا حامی ہے، کسی انسان کا دوسرے پر احسان نہیں ہے. تمام انسان محترم ہیں، لیکن «و ان لیس للانسان الا ما سعی». معاشرتی حقوق میں تمام انسان ایک جیسے ہیں، کوئی بھی اپنے آپ کو دوسروں سے بالاتر نہ سمجھے، بلکہ یہ تو دوسرے لوگ ہوتے ہیں کہ جو شخص علمی اور تقوی کے لحاظ سے بالاتر ہو اس کا احترام کرتے ہیں.
اس کے بعد آپ نے، حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی دو روایتوں کو بیان فرماتے ہوئے یوں فرمایا:
پہلی روایت، حفص بن بختری کی صحیحہ ہے، احکام الدواب، باب نمبر ٥٣ کی پہلی روایت، حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: «ان امرأة عذبت فی حرة ربتتھا حتی ماتت عطشاً» یہ روایت، صحيحہ ہے، یہ روایت حوزہ اور یوییورسٹی کی اصل سے ہے. یہ ایسے امام سے روایت ہے جنھوں نے ہم پر لطف کیا جو اجازت دی ہے کہ آپ کا نام لے سکیں، امام نے فرمایا ہے : «مسلماً، اور قطعی طور پر یہ یقینی بات ہے کہ جس عورت نے ایک بلی کو باندھ کر اتنا رکھا ہو کہ پیاس کی وجہ سے مرجائے، تو اسے جہنم میں لے جایا جائیگا».
آپ جیسے اہل علم حضرات کو معلوم ہے کہ حکم اور موضوع کی مناسبت، خصوصیت کو الغاء کرنا ہے، یعنی کہ بلی کو اذیت کرنا، عذاب کا موجب بنے گا. یعنی اگر اس کے جسم کو روحی اذیت میں مبتلا رکھا ہو اور اس کے بچوں کو اس سے علیحدہ کر دیا جائے تو یہ اخروی عذاب کا سبب بنے گا. حیوانات کا اسلام میں یوں دفاع کیا گیا ہے. اب خود سوچئے انسانوں کے بارے میں اسلام کے کیا نظریات ہوں گے.
اے عزیزو! اے امام صادق (علیہ السلام) کے فرزندو! اے فیضیہ! اے اسلامی جمہوریہ کی یونیورسٹی! اور اے کل اور آج کے دانشورو! اور اے کل اور آج کے متدین طالب علمو! اسلامی دنیا کے کونے کونے میں اپنے آپ پر فخر کرو اور جو چیز ان مسائل کے خلاف پائی گئی، تو ان مسائل سے ان کا موازنہ کرو.
دوسری روایت:
مکارم الاخلاق نے محاسن سے نقل کی ہے، باب ٥٢ کی دوسری روایت حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے ہے. سلام ہو آپ پر اے امام صادق! سلام ہو آپ کی تربت پاک پر! سلام ہو آپ کی بقیع پر! سلام ہو آپ پر جو تمام مشکلات کے باوجود درس دیا کرتے تھے. «بأبی انت و امی و اھلی و مالی».
امام نے فرمایا ہے : «اقذر الذنوب ثلاثہ؛ قتل البھیمة، حبس مھر المرأة و منع الاجیر اجرہ»، سب سے زیادہ برے گناہ تین ہیں، ایسے حیوان کو جو اپنے دفاع پر قدرت نہ رکھتا ہو، اسے مار دینا، عورت کے حق مہر کو روکے رکھنا (اسے ادا نہ کرنا)، کیونکہ روایات کے صادر ہونے کے وقت، عورت کے پاس کوئی ایسا طریقہ نہ تھا جس کے ذریعہ وہ اپنا حق مہر لے سکے اور کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں پر عورت جا کر یہ کہہ سکے کہ میرا حق مہر نہیں دے رہے، اور کیا عورتیں اس وقت یہ جرأت کر سکتی تھیں کہ کہیں میرا حق مہر مجھے دیا جائے. لہذا عورت کے حق مہر کو روکے رکھنا سب سے برے گناہوں میں سے ہے. اور مزدور کو اجرت نہ دینا بھی سب سے برے گناہوں میں سے ہے.
حضرت آیة اللہ العظمی صانعی نے اپنی بحث کو جاری رکھتے ہوئے ابن ہارون کی ایک اور روایت کی طرف اشارہ فرمایا:
اور دوسری روایات، ابن ہارون، حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) کے خاص صحابیوں میں سے ہے. اس نے امام محمد باقر (علیہ السلام) کے زمانے کو بھی دیکھا ہے اور امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے زمانے کو بھی دیکھا ہے، لیکن امام محمد باقر (علیہ السلام) کے زمانے میں بزرگ صحابیوں میں سے تھا.
ابن ہارون، امام صادق (علیہ السلام) سے ایک روایت نقل کرتا ہے جو باب العشرة کے ١٤٨ باب میں آئی ہوئی ہے. کہتا ہے، حضرت امام صادق (علیہ السلام) نے جو لوگ ان کے پاس بیٹھے تھے (میں بھی ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا) ان سے فرمایا: «قال لنفر عندہ: ما لکم تستخفّون بنا؟ فقال الیہ رجل من خراسان، معاذ لوجہ اللہ ان استخف بک او بشئ من امرک، فقال بلی، انک احد مں استخف بی، فقال معاذ لوجہ اللہ ان استخف بک، فقال لہ، ویحک، أ لم تسمع فلاناً و نحن بہ قرب الجحفہ و ھو یقول لک: احملنی قدر میل فقد واللہ عییتُ. واللہ ما رفعت بہ رأساً لقد استخففت بہ، من استخف بمؤمن فبنا استخف و ضیع حرمة اللہ عزوجل و ...» حضرت امام صادق (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے فرمایا کہ کیوں ہماری بے عزتی کرتے ہو؟ تو اس وقت خراسان کے ایک صحابی نے عرض کی: اللہ سے پناہ مانگتا ہوں، ہم نے کب آپ کی بے عزتی کی ہے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں! توں خود ان افراد میں سے ہو جس نے ہماری بے عزتی کی ہے. اس شخص نے دوبارہ عرض کی: میں اللہ تعالی سے پناہ مانگتا ہوں. آپ نے فرمایا: تم چپ رہو! جب ہم جحفہ (کسی مکان کا نام ہے) میں تھے تو کیا اس فلان شخص کی آواز تمھیں سنائی نہیں دی تھی جو تم سے کہہ رہا تھا کہ مجھے کچھ فاصلے تک اپنی سواری پر بٹھا لو، میں بہت تھک چکا ہوں، لیکن تم نے اس شخص کی کلام پر بالکل توجہ نہیں کی، توں نے حتی کہ اپنے سر کو بھی بلند نہیں کیا اور اس کی توہین کی ہے، جو کسی مؤمن کی توہین کرتا ہے اس نے ہماری توہین اور بے عزتی کی ہے اور اللہ تعالی کی حرمت کو ضایع کیا ہے و ...» حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) ان موارد کو نظر میں رکھتے تھے، یعنی اگر اس کو ساتھ بٹھانا نہیں چاہتے تھے تو بھی چاہئے تھا کہ اپنا سر اٹھا کر اس کو بتا دیتے کہ نہیں بٹھا سکتا یا کوئی مشکل ہے... نہ یہ کہ بغیر توجہ کہ گذر جاؤ.آپ نے اپنے بیانات کے آخری حصے میں، اسلامی معارف کی نشر و اشاعت کے سلسلے میں، ائمہ معصومین (علیھم السلام) کے سامنے موجود مشکلات کے بارے میں فرمایا:
ابوہارون جو امام محمد باقر (علیہ السلام) کے زمانے کے بزرگ صحابیوں میں سے ہے، کہتا ہے: «قال کنت ساکنا دار حسن ابن حسین» میں حسن بن حسین نامی شخص کے گھر پر رہتا تھا. «فلما علم انقطاع الی ابی جعفر و ابی عبدالہ علیھما السلام، اخرجنی من دارہ» جب اسے میرے امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیھما السلام) سے رابطے کا علم ہوا تو اس نے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا، اور کہا کہ تمہارا ان کے ساتھ میل جول ہے. «قال فمر بی ابوعبداللہ علیہ السلام، فقال لی یا ھارون بلغنی ان ھذا اخرجک من دارہ!» ایک دن حضرت امام صادق علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا: اے ہارون! میں نے سنا ہے کہ اس شخص نے تمھیں گھر سے نکال دیا ہے!. «قال نعم! جعلت فداک» جی ہاں! اس نے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا ہے. «قال: بلغنی انک کنت تکثر فیہ تلاوة کتاب اللہ تعالی» آپ نے فرمایا: میں نے سنا ہے کہ تم وہاں پر قرآن کی بہت زیادہ تلاوت کرتے ہو! «والدار اذا تلی فیھا کتاب اللہ، کان لھا نور ساطع من السماء تعرف من بین الدور؛» یعنی ایسا گھر جس میں اللہ تعالی کی کتاب یعنی قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہو، اس گھر سے آسمان کی طرف ایک نور ساطع ہوتا ہے جو اس گھر کو دوسرے گھروں سے ممتاز کر دیتا ہے. یعنی کہ وہ شخص اس چیز کی لیاقت ہی نہیں رکھتا تھا کہ اس کے گھر میں قرآن کی تلاوت کی جائے.
ملاحظہ کیجئے! جنایت کی انتہاء کہاں تک جاتی ہے، انسانی جنایات اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ حضرت امام محمد باقر اور حضرت امام جعفر صادق (علیھما السلام) کے گھروں میں جاری رفت و آمد کو بھی کنٹرول کیا جاتا ہے.
والسلام علیکم و رحمة اللہتاريخ: 2005/11/19 ويزيٹس: 8149