دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: انسان اس وقت حق اور عدالت کو تسليم کر سکتا ہے جب سوچ اور فکر رکھتا ہو
امام خميني کي سترھويں برسي کي مناسبت پر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کے بياناتانسان اس وقت حق اور عدالت کو تسليم کر سکتا ہے جب سوچ اور فکر رکھتا ہو
اسلام اس ليے آيا ہے کہ عقل اور سوچ کو استعمال ميں لائے اور آپ کوئي ايسا مورد نہيں پائيں گے جہاں اسلام نے عقل اور سوچ کے خلاف کوئي بات کي ہو.
حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے اسلامي جمہوريہ ايران کے باني، حضرت امام خميني سلام اللہ عليہ کي سترھويں برسي کے ايام ميں اپنے درس خارج کے اختتام پر تفصيلي بيانات ميں دين اسلام ميں عقل کا رتبہ اور اسلامي معاشرے ميں اس مھم کي ترويج کے بارے ميں حضرت امام خميني کے کردار کو اجاگر فرماتے ہوئے فرمايا: «اسلام صلح اور عدالت کا حامي ہے اسي طرح ظلم اور خشونت اور انسانيت کے خلاف آزار و اذيت کا مخالف بھي. اسي طرح علم اور فضيلت اور عقل و سوچ کي حمايت کرتا ہے. اصولي طور پر اسلام ميں کتاب اور سنت کے ساتھ ساتھ عقل بھي ايک اہم بنياد ہے. اور آج مہذب دنيا کے سامنے ہميں فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہم ايسے دين کے حامي اور اس کے پيروکار ہيں جس کي اصلي بنياد اور اساس عقل اور سوچ پر استوار ہے».
حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے اس نکتے کي طرف اشارہ فرماتے ہوئے کہ جب حضرت آدم عليہ السلام کے لئے جبرئيل امين تين چيزيں لائے، حضرت آدم عليہ السلام نے عقل، دين اور حياء ميں سے عقل کو منتخب فرمايا. آپ نے فرمايا: «اگر عقل ہو تو حيا اور دين بھي ہوتا ہے. اصل ميں جب انسان آگاھي اور سوچ رکھتا ہو تو اپنے لئے اسي طرح دوسروں کے لئے اہميت قائل ہوگا، لہذا حياء رکھتا ہوگا اور ہر ايسے قول اور فعل سے اجتناب کرے گا جس سے دوسروں کو نقصان پہنچتا ہو يا اللہ تعالي کي معصيت ہو رہي ہو».
فقیہ عالي قدر نے فرمايا کہ تمام الھي انبياء کا دين اسلام کو تسليم کرنے کا اصلي فلسفہ يہي ہے کہ عدالت اور حق کے سامنے تسليم ہونا ہے. آپ نے فرمايا: «انسان اس وقت حق اور عدالت کو تسليم کر سکتا ہے جب سوچ اور فکر رکھتا ہو اور صرف اسي صورت ميں حق اور عدالت کے آگے متکبرانہ رويہ اختيار نہيں کرے گا حتي کہ اگر اس کے ذاتي منافع سے ٹکراؤ بھي رکھتے ہوں».تاريخ: 2006/05/30 ويزيٹس: 7428